۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ/ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔انسان کی خلقت کا مقصد معرفت اورقرب خداوندی حاصل کرنا ہے۔ اسلام تعلیم و تربیت  پر زیادہ تاکید کرتاہے اسی لئے خداوند متعال نے انسان کی تربیت کا بندوبست انسان کی تخلیق سے پہلے فراہم کیا اور انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا اور اس کے اندر ایسی صلاحیت رکھی ہے کی کہ جس کے ذریعہ انسان اگر اپنے ضمیرکی طرف توجہ کرے تو اس کا ضمیر اسے رہنمائی کرے۔

تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ نیوز ایجنسیخالق حقیقی کے ساتھ ارتباط پیدا کرنا انسان کی فطری ضروریات میں سے ایک ہے۔تمام ادیان اپنے حساب سے خاص مناسک اور عبادات بجا لاتے ہیں۔طول تاریخ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو عبادات اور مناسک بجا لانے کاطریقہ کارسکھائے تاکہ وہ خدا وند متعال کی بندگی کر سکیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کی تعلیم و تربیت خاص طور پر عبادات کے میدان میں ان کی تربیت کرنا والدین پر فرض ہے۔اس مقالہ میں ہم والدین پراولاد کی نسبت سے جو شرعی ذمہ داری عائد ہیں اس کا اسلامی منابع سے استنباطی طریقہ سے حکم بیان کرنے اوران سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرینگے کہ بنیادی طور پر ، کیا والدین پربچوں کو نماز کی تعلیم و تربیت دینا واجب ہیں ؟کیا یہ حکم واجب ہے یا مستحب؟ نماز کی تعلیم کب اورکس عمر میں دینا چاہئے۔ اگر بچوں کو نماز کی تعلیم و تربیت دیناوالدین کی شرعی ذمہ دار ہے تو اس کے دلائل کیا ہیں؟ کیا والدین پر لازم ہیں کہ وہ براہ راست خود اس ذمہ داری کو نبھا ئے یا کسی اور کے ذریعہ سے بھی وہ اس عمل کو انجام دے سکتا ہے؟اسلامی منابع کے مطابق واجب عبادات کی تعلیم و تربیت والدین پر واجب اوراسی طرح مستحب عبادات اوراعمال کی تعلیم و تربیت مستحب ہیں۔ والدین پر بچوں کو نماز پڑھانے کی ذمہ داری بچوں کی بلوغت سے پہلے شروع ہو جاتی ہے اور یہ حکم، واجب توصلی اور کفائی ہے۔

کلیدی الفاظ:نماز کی تعلیم، روزہ کی تعلیم ، عبادی تربیت، دینی تربیت،اسلامی تربیت۔

مقدمہ:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔انسان کی خلقت کا مقصد معرفت اورقرب خداوندی حاصل کرنا ہے۔ اسلام تعلیم و تربیت پر زیادہ تاکید کرتاہے اسی لئے خداوند متعال نے انسان کی تربیت کا بندوبست انسان کی تخلیق سے پہلے فراہم کیا اور انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا اور اس کے اندر ایسی صلاحیت رکھی ہے کی کہ جس کے ذریعہ انسان اگر اپنے ضمیرکی طرف توجہ کرے تو اس کا ضمیر اسے رہنمائی کرے۔ خدا وند متعال نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی میدان میں بھی انسان کی تربیت کا سامان فراہم کرتے ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انسان کامل ، مربی اور انبیاء بھیجے تاکہ وہ انسان کو اس کی فطرت کے مطابق تربیت کرے۔ قرآن کریم انبیاء الہی کی بعثت کےاہداف میں سے ایک انسان کی تعلیم و تربیت کو قراردیتے ہوئے فرماتا ہے : (هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهْمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَة)۱اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جوانہی میں سے تھا تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی کوشش یہی تھی کہ انسان کی اندرونی طاقت و استعداد مثبت پہلوؤں کی طرف گامزن ہو، اور وہ کمال اور سعادت کی بلندیاں طے کرے۔ قرآنِ کریم سورۂ آلِ عمران میں اِس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرماتا ہے: (لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلیَ المُؤْمِنینَ إذْ بَعَثَ فیهِمْ رَسُولاً مِنْ أنْفُسِهِمْ یَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَ یُزَکِّیهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ إنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ)۲ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اِس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔امام خمینی رہ فرماتے ہیں: خدا کی طرف سے جتنے بھی انبیاء علیہم السلام تشریف لائےہیں وہ سب انسان کی تربیت اورانسان سازی کے لئے آئے ہیں۔ اسلامی تربیت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسان کی تمام ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے خواہ مادی ہوں یا معنوی، جسمانی ہوں یا روحانی۔خداوند متعال نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوزا ہے جن میں سے ایک عظیم نعمت اولاد کی نعمت ہے۔ دین اسلام نے اس عظیم نعمت کے حوالے سے والدین کے اوپر کچھ ذمہ دایاں بھی عائد کی ہیں جن میں سے ایک اہم ذمہ داری اولاد کی صحیح تربیت کرنا ہے۔ بچے اس ننھے پودے کی مانند ہے جسے ہر قسم کی گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ کر ایک تناور درخت کی شکل میں پروان چڑھا نا ہوتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کسی قسم کی بھی کوئی کوتاہی اورلاپرواہی نہ کریں۔ بچوں کی اچھی تربیت کے لئے والدین کو خصوصی توجہ دینی چاہیے تا کہ ایک باکردار، پرہیزگار اورباتقوی فرد معاشرہ کے سپرد کرے ۔اولاد کی تربیت کے بارے میں اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اسی لئے بہت سے علماء اور
دانشوروں نے تعلیم و تربیت کے موضوع پر اپنی کتابوں میں اولاد کی تربیت پر قلم فرسائی کی ہے۔ بچوں کی تربیت کا ایک حصہ ان کی عبادی تربیت کرنا ہے ۔
خالق حقیقی کے ساتھ ارتباط پیدا کرنا انسان کی فطری ضروریات میں سے ایک ہے۔تمام ادیان اپنے حساب سے خاص مناسک اور عبادات بجا لاتے ہیں۔طول تاریخ میں تمام انبیاء نے اپنے پیروکاروں کو عبادات اور مناسک سکھاتے رہےتاکہ وہ خدا وند متعال کی بندگی کر سکیں۔لغت میں عبادت سے مراد ستایش اور پرستش کرنا ،خشوع و خضوع کے ساتھ خدا کی بندگی کرناہے لیکن اصطلاح میں عبادت سے مراد کسی عمل کو خدا کے حکم پر بجا لانے کو کہتے ہیں۔
تربیت کی لغوی و اصطلاحی تعریف:
لغت کی کتابوں میں لفظ" تربیت" کے لیے تین اصل اور ریشہ ذکر ہوئے ہیں۔ الف:ربا،یربو زیادہ اور نشوونما پانےکے معنی میں ہے۔ ب: ربی، یربی پروان چڑھنا اور برتری کے معنی میں ہے۔ج: رب،یرب اصلاح کرنے اور سرپرستی کرنے کے معنی میں ہے۔صاحب مفردات کا کہنا ہے کہ "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے ، نقائص کو تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔ بنابر این اگر اس کا ريشه(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب" سے ہو تو نظارت ، سرپرستي و رهبري اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔
اسلامی علوم اوردینی کتابوں میں تربيت کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں :
1۔ قصد اورارادہ کے ساتھ کسی دوسرے افراد کی رشد کے بارے میں ہدایت کرنے کو تربیت کہا جاتا ہے۔
2۔ تعليم و تربيت سے مرادوہ فعاليت اور كوشش ہے کہ جس میں بعض افراد دوسرے افراد کی راہنمائی اور مدد کرتے ہیں تاکہ وہ بھی مختلف ابعاد میں پیشرفت کرسکے۔
3۔ تربيت، سعادت مطلوب تک پہنچنے کے لئے انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا نام ہے تاکہ دوسرے لوگ اپنی استعداد کو ظاہر کرےاور راہ سعادت کا انتخاب کرے۔
4۔ ہر انسان کی اندرونی استعداد کو بروئے کارلانے کے لئے زمینہ فراہم کرنا اور اس کے بالقوہ استعداد کو بالفعل میں تبدیل کرنے کے لئے مقدمہ اور زمینہ فراہم کرنے کا نام تربیت ہے۔
۴۔شہید مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔
۵۔تربیت سے مراد مربی کا متربی کےمختلف جہات میں سے کسی ایک جہت{ جیسے جسم، روح ،ذہن،اخلاق،عواطف یا رفتار وغیرہ} میں موجود بالقوۃ صلاحیتوں کو تدریجی طور بروئے کار لانایا متربی میں موجود غلط صفات اور رفتا رکی اصلاح کرنا تاکہ وہ کمالات انسانی تک پہنچ سکے۔
تربیت عبادی :
تربیتعبادی سے مراد والدین یامربی کا متربی کے لئےعبادات کاطریقہ سکھانا اورمتربی کے اندر عبادت و بندگی کا ذوق و شوق پیدا کرنا ہے تاکہ وہ ان عبادات کو انجام دینے میں پابند ہو ۔
والدین پر بچوں کی عبادی تربیت واجب ہونے کے دلائل
متعدد دلائل کے مطابق والدین پر لازم ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو نماز سکھانے اوران کے اندر عبادت و بندگی کا ذوق و شوق پیدا کرنے میں کسی قسم کی بھی کوتاہی نہ کریں ۔اس سلسلے میں ہم یہاں کچھ دلائل پیش کرنے کی کوشش کریں گے ۔
پہلی دلیل :آیہ وقایہ
يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ قُواْ أَنفُسَكمُ‏ وَ أَهْلِيكمُ‏ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الحْجَارَةُ عَلَيهْا مَلَئكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ۔۳ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔
حفاظت کی دو قسمیں ہیں: بعض اوقات خطرے سے حفاظت براہ راست ہوتا ہے اور کبھی کبھی بالواسطہ انسان خطرے سے کسی کو بچاتا ہے۔خود خطرے سے بچانا انسان کے اختیار میں نہیں ہے لیکن اس خطرے کے جو اسباب اورعوامل ہیں وہ انسان کے دائرہ اختیار میں ہے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ میں جانے کے جو اسباب و عوامل ہیں ان اسباب و عوامل سے بچاو۔ انسان صرف محرمات کو بجا لاکر جہنم میں نہیں جاسکتا بلکہ واجبات کو ادا نہ کر کے بھی وہ جہنم میں جا سکتا ہے۔بنابر این جہنم سے اپنے اہل و عیال کو بچانے سے مراد داجبات کی ادائیگی کے اسباب فراہم کرنا اسی طرح محرمات سے اجتناب کرنے کے اسباب و عوامل کو فراہم کرنا ہے۔ بچوں کو نماز کی تعلیم دینا اور ان کے اندر خداوند متعال کی بندگی کرنے کا ذوق و شوق پیدا کرنا اوردعا و مناجات سکھانا یہ سب جہنم کے آگ سے بچانے کے اہم مصادیق میں سے ہیں اسی طرح بچوں کو آزاد چھوڑ دینا اورانہیں نماز و دیگر اعمال کی طرف راغب نہ کرنا یہ سب بچوں کے جہنم تک جانے کا باعث بنتا ہے۔ بنابرایں یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ والدین کے اوپر بچوں کی عبادی تربیت کرنا واجب ہیں اور نماز کی تعلیم و تربیت عبادی تربیت کے برجستہ ترین مصادیق میں سے ہیں۔
دوسری دلیل: رسالۃ الحقوق
والدین پر لازم ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو نماز کی تعلیم دیں ۔ اس کی دلیل کے لئے ہم یہاں امام سجاد علیہ السلام کے کچھ کلمات بعنوان دلیل بیان کر یں گے۔ رسالۃ الحقوق میں آپ فرماتے ہیں کہ والدین پر لاز م ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے ادب سکھائیں، اس کے پروردگار کی طرف اس کی راہنمائی کریں اور اس کی اطاعت میں اس کی مدد کریں۔
امام سجاد علیہ السلام رسالۃ الحقوق میں فرماتے ہیں:(وَ أَمَّا حَقُّ وَلَدِكَ فَتَعْلَمُ أَنَّہُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ إِلَيْكَ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا بِخَيْرِہِ وَ شَرِّہِ وَ أَنَّكَ مَسْئُولٌ عَمَّا وُلِّيتَہُ مِنْ حُسْنِ الْأَدَبِ وَ الدَّلَالَةِ عَلَى رَبِّہِ وَ الْمَعُونَةِ لَہُ عَلَى طَاعَتِہِ فِيكَ وَ فِي نَفْسِہِ فَمُثَابٌ عَلَى ذَلِكَ وَ مُعَاقَبٌ فَاعْمَلْ فِي أَمْرِہِ عَمَلَ الْمُتَزَيِّنِ بِحُسْنِ أَثَرِہِ عَلَيْہِ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا الْمُعَذِّرِ إِلَى رَبِّہِ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَہُ بِحُسْنِ الْقِيَامِ عَلَيْہِ وَ الْأَخْذِ لَہُ مِنْہُ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ)۴
تمہارے اوپر بیٹے کا حق یہ ہے کہ تم یہ جان لو کہ وہ تمہارا ہی ہے دنیا میں تمہی سے وابستہ ہے اور اس کا خیرو شر بھی تمہاری ہی طرف منسوب ہوتا ہے اور یہ ذمہ داری تمہاری ہے کہ اسے ادب سکھاؤ، اس کے پروردگا کی طرف اس کی راہنمائی کرو اور اس کی اطاعت میں اس کی مدد کرو اگر تم اس ذمہ داری کو پورا کرو گے تو ثواب پاؤ گے اور اگر اس کی انجام دہی میں کوتاہی کروگے تو سزا پاؤ گے۔ پس اس کے لیے اس طرح نیک عمل کرو کہ اس کا حسن و جمال دنیا میں آشکار ہوجائے اور اس کی جو بہترین سرپرستی تم نے کی ہے اور جو نتیجہ تم نے حاصل کیا ہے وہ خدا کی بارگاہ میں تمہارے اور اس کے درمیان ایک عذر ہوجائے۔ لاقوۃ الا باللہ
علم حدیث‌ کے ماہرین رسالۃ الحقوق کے سند کے تسلسل اور معتبر کتابوں میں تذکرہ ہونے کی بنا پر اس حدیث کو معتبر حدیثوں میں شمار کرتے ہیں۔۵ اس حدیث کو ابو حمزہ ثمالی نے امام سجادؑ سے نقل کی ہیں اور علم رجال کے شیعہ علماء ابو حمزہ ثمالی کو "شیعوں کی برگزیدہ شخصیت"، "ثقہ" اور "معتمد" سمجھتے ہیں۔۶سب سے قدیم حدیثی مآخذ جن میں یہ حدیث بطور کامل نقل ہوئی ہیں یہ ہیں: ابن‌ شُعبہ حَرّانی (متوفی 381 ھ) کی کتاب تُحَف‌العقول،۷ شیخ صدوق متوفی 382 ھ کی تین کتابیں خصال،۸ من لا یَحضُرُہُ الفقیہ۹اور اَمالی،۱۰۔مُستَدرَک‌ الوسایل میں محدث نوری کے مطابق سید بن طاووس 589-664 ھ بھی اس حدیث کو اپنی کتاب فلاح ‌السائل میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے شیخ کلینی کی کتاب رسائل‌ الائمہ سے نقل کئے ہیں۔ البتہ یہ مطلب کتاب فلاح‌ السائل کی شایع شدہ نسخے میں موجود نہیں؛ لیکن مستدرک الوسائل کی مصححین کہتے ہیں کہ یہ مطلب اس کتاب کے غیر مطبوع نسخے میں موجود ہے۔۱۱
امام سجاد علیہ السلام کے اس کلام میں شاہد مثال (وَ الدَّلَالَةِ عَلَى رَبِّہِ وَ الْمَعُونَةِ لَہُ عَلَى طَاعَتِہِ)یہ عبارت ہے۔خداوند متعال کی طرف راہنمائی کرنے کے دو معانی ہیں:۱۔خداوند متعال اور صفات خداوند ی کی تعلیم دینا۲۔خداوند متعال کے دین کی طرف راہنمائی کرنا اور جن چیزوں سے رضایت خداوندی حاصل ہوتی ہے ان اعمال کی تعلیم دینا۔ بنابریں اگر دوسرا معنی مراد ہو تو یہ ہمارے موضوع بحث کے ساتھ مربوط ہو گا۔
یہ عبارت(وَ الْمَعُونَةِ لَہُ عَلَى طَاعَتِہِ) واضح طور پر اس ذمہ داری کو بیان کرتی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو خداوند متعال کی اطاعت کرنے میں مدد کریں اور خداوند متعال کی اطاعت کا برجستہ ترین مصداق واجبات کو بجا لانا اور محرمات کو ترک کرنا ہے۔لہذا والدین پر لازم ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو واجبات اور محرمات کی تعلیم دیں اسی طرح نماز اور دیگر عبادات بجا لانے کی تعلیم دیں اور انہیں ان عبادتوں سے زیادہ سے زیادہ مانوس کر دیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ خدا کی بندگی کریں اور یہ سب والدین کی ذمہ داری ہے۔
دوسری جانب لفظ (حق) وجوب پر دلالت کرتی ہے اگرچہ اس رسالہ میں بعض حقوق جو امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ہے وہ مستحب حقوق پر مشتمل ہے لیکن اس عبارت(انّکَ مسَؤولٌ) کے قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وجوب کے معنی میں آیا ہے لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی عبادی تربیت میں ان کی مدد کریں اور یہ بات واضح ہے کہ والدین کو اس کام کے لئے اپنے بچوں کی بلوغت سے پہلے ہی مختلف پروگرام اور اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
تیسری دلیل:آیہ سورہ طہ
(وأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ)
اوراپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے کوئی رزق نہیں مانگتے بلکہ آپ کو رزق ہم دیتے ہیں اور انجام اہل تقویٰ ہی کے لیے ہے۔
بعض روایات کے مطابق اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم چالیس دن تک اوربعض روایات کے مطابق
چھ ماہ تک ، نماز کے وقت ،حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر کے سامنے حاضر ہوتے اورفرماتے تھے:(السلام علیکم یا اهل بیت النبوة) آپ پر سلام ہو اور خدا کی رحمت اور برکتیں آپ پر ہوں۔" اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو کھولتے تھے اوردروازے کو پکڑتے اورفرماتے تھے؟(الصلاة الصلاة یرحمکم الله) نماز نماز، خدا آپ لوگوں پر رحم کریں اس کے بعد آیہ تطہیر کی تلاوت کرتے اور مسجد میں تشریف لے جاتے تھے۔اس آیت کریمہ میں اپنے اہل و عیال کو نمازپڑھنے کے لئے دستور دینے کا حکم ہوا ہے ۔
مادہ امر و صیغہ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اورآیہ شریفہ کا معنی یہ ہے کہ اپنے لوگوں کو یعنی اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دو!
یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مخاطب ہے اور یہ بھی جانتے ہیں اللہ تعالی کی طرف سے کچھ خاص ذمہ داریاں صرف ان کی ذات سے مخصوص ہیں جیسے نماز شب کا واجب ہونا وغیرہ اسی طرح بعض ذمہ داریاں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مختص نہیں ہیں۔یہاں اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ یہ ذمہ داری صرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مختص ہیں یا بقیہ افراد بھی اس ذمہ داری میں شامل ہیں؟
اصل قاعدہ و قانون یہ ہے کہ یہ ذمہ داریاں سب کے لئے ہیں لہذا والدین اور مربی سب کی ذمہ داری ہیں کہ وہ اپنے بچوں اور متربی کو نماز کا حکم دے۔ اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دینا اس وقت واجب ہے جب والدین کو علم ہو کہ ان کا یہ حکم بچے پر اثر انداز ہو گا ۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو سیرت نقل ہوئی وہ بعنوان اسوہ و الگو ہونے کی وجہ سے استحباب پر دلالت کرتی ہے وگرنہ خود سیرت جواز پر دلالت کرتی ہے۔ اسی طرح لفظ اہل کم از کم باپ ، ماں ، بچہ ، بیوی ، پوتی اور آباؤ اجداد کو شامل ہیں لیکن غیر ممیز اور غیر عاقل افراد کو یہ حکم شامل نہیں ہوتا ہے۔
نماز کا حکم دینے کے لئےبچے کا عمر کیا ہونا چاہیے اس حوالے سے تین احتمال ہیں:
۱۔مطلقا بالغ ہونے کے بعد۔
۲۔بالغ ہونے سے پہلے کو بھی یہ حکم شامل ہوگا البتہ اس حد تک کہ بچہ بلوغت کے بعد نماز کے لیے تیار ہو۔
۳۔مطلقا بلوغت سے پہلے اورممیز ہو تو اسے نماز کا حکم دینا چاہیے۔
دوسرا احتمال آیت کے ظہور کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔لیکن نماز کے لئے بچوں کو حکم دینا مستحب ہیں اور اس استحباب کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہیں۔
(وأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا) اس آیہ کریمہ میں (علیہا) کی ضمیر نماز کی طرف پلٹتی ہے یا نماز کے لئے حکم دینے کی طرف؟ کس چیز پر صبر کرنے کی تلقین ہوئی ہے؟ والدین اپنے نماز پڑھنے پر صبر کریں یا بچوں کو نماز کا حکم دینے پر صبر کریں؟ پہلا احتمال درست ہے چونکہ ضمیر اپنے نزدیک ترین مرجع کی طرف پلٹتی ہے۔اس صورت میں اس آیہ کریمہ کے پہلے حصہ میں اللہ تعالی والدین کو یہ حکم دے رہا ہے کہ کہ وہ اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کے لئے دستور دیں اوردوسرے حصہ میں خود والدین کو یہ حکم ہوا ہے کہ اپنے نماز پر بھی توجہ دیں اور صبر و برباری سے کام لیں۔کیونکہ بچوں کو نماز کا دستور دینے کے علاوہ اپنے نماز کی پابندی کا مشقت بھی قبول کریں اسی میں بھی تربیتی نکات موجود ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس آیت شریفہ کے مطابق والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بلوغت سے پہلے اور بعد میں واجب نمازوں کے بارے میں دستور دیں اور اسی طرح والدین خود بھی نماز کا پابند ہو۔

حوالہ جات:
۱۔جمعہ،۲۔
۲۔ آل عمران،۱۶۴۔
۳۔تحریم،۶
۴۔مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل , ج 15 , ص 168
۵۔حسینی جلالی، سید محمد رضا، جہاد امام سجاد، ترجمہ موسی دانش، ص۲۹۳،مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۲ش۔
۶۔نجاشی، احمد بن علی، رجال ‌النجاشی،ص۱۱۵، قم، جامعہ مدرسین، چاپ ششم، ۱۳۶۵ش۔
۷۔ابن ‌شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف‌ العقول عن آل‌ الرسول، تحقیق علی‌ اکبر غفاری، ص۲۵۵،قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
۸۔صدوق، محمد بن علی،الخصال، تحقیق علی‌ اکبر غفاری،ج۲، ص۵۶۴، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۳۶۲ش۔
۹۔صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق علی‌ اکبر غفاری،ج۲، ص۶۱۸تا۶۲۵، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
۱۰۔صدوق، محمد بن علی، الامالی،ص۳۶۸تا۳۷۵، تہران، کتابچی، چاپ ششم، ۱۳۷۶ش۔
۱۱۔محدث نورى، حسين بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل‏، مؤسسہ آل‌ البیت علیہم‌ السلام، چاپ اول، ‏۱۴۰۸ھ۔
۱۲۔ طہ ۱۳۲۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .